Poem: University
یہ دن کتنے حسین دن ہیں
ابھی بس موج مستی ہے
کہاں دنیا کے ہنگامے
کہاں یہ یونیورسٹی ہے
یہ رستہ پر سکوں رستہ
یہ منزل خوب منزل ہے
مگر اے ہم قدم میرے
سفر یہ عارضی ہو گا
ذرا آگے جو دیکھو تو
یہ رستہ بھی کئی رستوں میں بٹتا ہے
کئی رستے نظر میں گھوم جاتے ہیں
یہ کچھ لمحے جو بیتے تو
سبھی پھر یوں جدا ہوں گے
کوئی رستہ بدل لے گا
کوئی منزل بدل لے گا
سفر سب کا جدا ہو گا
بچھڑنا اک حقیقت ہے
بچھڑنا تو بچھڑنا ہے
یہ تھامے ہاتھ بھی پھر چھوٹ جائیں گے
مگر اے ہم قدم میرے
کہیں ایسا نہ ہو جائے
بچھڑنا اک سزا ٹھہرے
بچھڑٰنا تو بچھڑنا ہے
مگر اے ہم قدم میرے
کہیں ایسا نہ ہو جائے
کوئی روتا ہوا بچھڑے
کوئی اپنی شرارت سے
بہت الجھا ہوا بچھڑے
چلو اک عہد کرتے ہیں
گلے شکوے جو ہیں بھی تو
انھیں دل سے بھلانا ہے
گلے شکوے اگر ہوں گے
انھیں دل سے بھلائیں گے
بچھڑنے کو بچھڑ جائیں گے ہم لیکن
یہ دن جب یاد آئیں گے
بہت آنسو بہائیں گے
بہت آنسو بہائیں گے
یہ دن کتنے حسین دن ہیں
ابھی بس موج مستی ہے
کہاں دنیا کے ہنگامے
کہاں یہ یونیورسٹی ہے
یہ رستہ پر سکوں رستہ
یہ منزل خوب منزل ہے
Write Comment
You must be logged in to post a comment.
Umer Nasim
boht khoob