Poem: University

May 29, 2018 one comment Tahir Shahzad Categories PoetryTags , ,

یہ دن کتنے حسین دن ہیں
ابھی بس موج مستی ہے
کہاں دنیا کے ہنگامے
کہاں یہ یونیورسٹی ہے

یہ رستہ پر سکوں رستہ
یہ منزل خوب منزل ہے

مگر اے ہم قدم میرے
سفر یہ عارضی ہو گا
ذرا آگے جو دیکھو تو
یہ رستہ بھی کئی رستوں میں بٹتا ہے
کئی رستے نظر میں گھوم جاتے ہیں

یہ کچھ لمحے جو بیتے تو
سبھی پھر یوں جدا ہوں گے
کوئی رستہ بدل لے گا
کوئی منزل بدل لے گا
سفر سب کا جدا ہو گا

بچھڑنا اک حقیقت ہے
بچھڑنا تو بچھڑنا ہے
یہ تھامے ہاتھ بھی پھر چھوٹ جائیں گے

مگر اے ہم قدم میرے
کہیں ایسا نہ ہو جائے
بچھڑنا اک سزا ٹھہرے

بچھڑٰنا تو بچھڑنا ہے
مگر اے ہم قدم میرے
کہیں ایسا نہ ہو جائے
کوئی روتا ہوا بچھڑے
کوئی اپنی شرارت سے
بہت الجھا ہوا بچھڑے

چلو اک عہد کرتے ہیں
گلے شکوے جو ہیں بھی تو
انھیں دل سے بھلانا ہے
گلے شکوے اگر ہوں گے
انھیں دل سے بھلائیں گے
بچھڑنے کو بچھڑ جائیں گے ہم لیکن
یہ دن جب یاد آئیں گے

بہت آنسو بہائیں گے
بہت آنسو بہائیں گے

یہ دن کتنے حسین دن ہیں
ابھی بس موج مستی ہے
کہاں دنیا کے ہنگامے
کہاں یہ یونیورسٹی ہے
یہ رستہ پر سکوں رستہ
یہ منزل خوب منزل ہے